Sher o Shayari /شعر و شاعری
اسلام میں Sher o Shayari بذات خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ وہ اشعار جو حق، حکمت، نصیحت، اور اسلام کی تبلیغ کے لیے ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ تاہم، فضول اور بے مقصد اشعار جو گناہ اور غفلت کا باعث بنیں، ان کی مذمت کی گئی ہے۔ آئیے ایک حدیث دیکھیں
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِأَنَّ يمتلىءَ جَوْفُ رَجُلٍ قَيْحًا يَرِيهِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ
يمتلئ شعرًا» مُتَّفق عَلَيْهِ
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھر کر خراب ہو جانا ، اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ (مذموم) اشعار سے بھر جائے ۔‘‘ متفق علیہ ۔(مشکوٰۃ المصابیح:4794)
اِس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے شعر و شاعری کی مذمت کی ہے، بشرطیکہ وہ غیر اخلاقی، فضول، یا دینی اصولوں کے خلاف ہو۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
> "کسی آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا، اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ (مذموم) اشعار سے بھر جائے۔" (بخاری و مسلم)
وضاحت:
یہ حدیث ان اشعار کے متعلق ہے جو انسان کے دل و دماغ کو دین سے غافل کر دیں اور اخلاقی یا روحانی نقصان کا سبب بنیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے اشعار کی مذمت کی ہے جو غیر مہذب ہوں، فضول وقت گزاری کے لیے ہوں، یا دین کی تعلیمات کے خلاف ہوں۔
اہم نکات:
1. اشعار کے فوائد اور نقصانات:
اسلام میں شعر و شاعری بذات خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ وہ اشعار جو حق، حکمت، نصیحت، اور اسلام کی تبلیغ کے لیے ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ تاہم، فضول اور بے مقصد اشعار جو گناہ اور غفلت کا باعث بنیں، ان کی مذمت کی گئی ہے۔
2. پیپ کی مثال:
پیپ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے جسم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس مثال کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے واضح کیا کہ مذموم اشعار انسان کے دل و دماغ پر منفی اثر ڈالتے ہیں اور اس کی روحانیت کو برباد کرتے ہیں۔
3. شعر کی شرائط:
اگر اشعار ایمان کو تقویت دیں، اخلاقیات کی تعلیم دیں، یا اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو بڑھائیں، تو یہ پسندیدہ ہیں۔ مثال کے طور پر، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار کی رسول اللہ ﷺ نے تعریف فرمائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اہجُهمْ وروحُ القُدسِ معكَ"
(ترجمہ: "ان (کفار) پر ہجو کرو، اور روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں۔")
(صحیح البخاری: 3213، صحیح مسلم: 2485)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شاعری کی تعریف کی اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ وہ کفار کے خلاف اپنے اشعار سے دفاع کریں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی مدح اور اسلام کی حمایت میں اشعار کہنے کی سعادت حاصل تھی، اور ان کی شاعری کو دین کی خدمت کے طور پر سراہا گیا۔
نتیجہ:
اوپر کی عبارت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنی گفتگو، وقت اور دلچسپیوں میں محتاط رہیں۔ ایسی چیزوں سے بچیں جو ہمیں دین سے دور کریں اور اپنی توانائیاں ان کاموں میں صرف کریں جو دنیا اور آخرت میں فائدہ مند ہوں۔
کُچّھ علماء کے اقوال شعر و شاعری سے متعلق
1. امام نوویؒ کی تشریح:
امام نوویؒ نے "شرح صحیح مسلم" میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
یہ حدیث ان اشعار کی مذمت میں ہے جو فضول، لغو اور گناہ پر مشتمل ہوں۔ تاہم، وہ اشعار جو حق، دعوت الی اللہ، حکمت اور نیکی کی طرف بلاتے ہیں، ان کی مذمت نہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ امام نوویؒ کے مطابق اس حدیث کا مفہوم عمومی نہیں بلکہ ان اشعار تک محدود ہے جو دل کو دین سے غافل کر دیں یا کسی برائی کا سبب بنیں۔
2. علامہ ابن حجر عسقلانیؒ کی تشریح:
ابن حجر عسقلانیؒ نے "فتح الباری" میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں شعر عام طور پر دو طرح کے تھے:
وہ جو شرک، فحاشی یا دشمنی پر مشتمل تھے۔
وہ جو حمد و ثنا، نصیحت اور اخلاقیات پر مشتمل تھے۔
انہوں نے کہا کہ حدیث میں "پیٹ کے پیپ سے بھر جانے" کی مثال ان اشعار کے لیے دی گئی ہے جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیں اور اس کی روحانی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔
3. علامہ قرطبیؒ کا قول:
علامہ قرطبیؒ نے فرمایا:
اسلام میں شعر بذاتِ خود ممنوع نہیں، بلکہ اس کا مقصد اور مواد دیکھنا ضروری ہے۔ جو اشعار شریعت کی حدود کے اندر ہوں اور کسی خیر کی دعوت دیں، وہ مستحب ہیں۔ لیکن ایسے اشعار جن میں غیر شرعی امور ہوں، وہ مذموم ہیں اور ان سے بچنا ضروری ہے۔
4. شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا نقطہ نظر:
ابن تیمیہؒ نے شعر و شاعری کے بارے میں فرمایا:
شعر ایک ایسا وسیلہ ہے جو خیر اور شر دونوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کا زیادہ وقت ایسے اشعار میں صرف ہو جائے جو دینی معاملات سے غافل کر دیں، تو یہ اس کی دین داری کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس حدیث میں ایسے ہی رویے سے منع کیا گیا ہے۔
5. مفسرین کا اتفاق:
مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث ان اشعار کے بارے میں ہے جو:
1. انسان کو وقت کے ضیاع کی طرف لے جائیں۔
2. شریعت کے خلاف مواد پر مشتمل ہوں۔
3. اخلاق اور کردار کو خراب کریں۔
Conclusion:
یہ حدیث ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہم اپنی زبان اور وقت کا صحیح استعمال کریں۔Sher o Shayari یا دیگر تفریحی کاموں کو حدود میں رکھیں اور ان کا زیادہ وقت دین اور آخرت کی تیاری میں صرف کریں۔
وہ اشعار یا ادب جو اللہ کی یاد، اخلاقی اصلاح اور نصیحت کا ذریعہ ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ کو دعوتی اشعار کے لیے سراہا تھا۔
یہ حدیث ان اشعار کی مذمت کرتی ہے جو انسان کو دین سے غافل کریں اور برائی کی طرف لے جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی مصروفیات میں اعتدال اور توازن رکھیں اور دینی اور دنیاوی امور میں اللہ کی رضا کو ہمیشہ مقدم رکھیں۔
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like | Comment | Save | Share | Subscribe
*•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
Tags